طالبان کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ جب تک طالبان کے 5000 قیدی نہیں چھوڑے جاتے وہ افغان مذاکرات میں شرکت نہیں کریں گے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’ہم بین الافغان مذاکرات کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں لیکن ہم اپنے 5000 قیدیوں کی رہائی کا انتظار کر رہے ہیں۔‘
سنیچر کو قطر میں ہونے والے تاریخی امن معاہدے کے مطابق 5000 طالبان قیدیوں کی رہائی کے بدلے طالبان کے زیر حراست ایک ہزار قیدیوں کو 10 مارچ تک رہا کیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ ’اگر ہمارے 5000 - 100 یا 200 کم زیادہ سے فرق نہیں پڑتا - رہا نہ کیے گئے تو بین الافغان مذاکرات نہیں ہوں گے۔‘
گذشتہ روز افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ ان کی حکومت نے طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کا وعدہ نہیں کیا، جیسا کہ دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے میں کہا گیا ہے۔
ذبیح اللہ نے کہا کہ سات دن میں تشدد میں کمی لانے والا معاہدہ اب باضابطہ طور پر ختم ہو چکا ہے۔
اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کا راستہ کٹھن اور ناہموار ہو گا۔ ’کسی کو بھی یہ غلط فہمی نہیں ہے کہ یہ مذاکرات مشکل نہیں ہوں گے۔'
امریکی ٹی وی چینل سی بی ایس نیوز کے پروگرام 'فیس دی نیشن' میں انٹرویو دیتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ ایک تاریخی دن تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’ہمیں امید ہے کہ آنے والے وقت میں باضابطہ بین الافغان مذاکرات کا آغاز بھی ہوگا جوکہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔'
انھوں نے افغانستان میں جنگ بندی کے معاہدے اور امن کوششوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ راستہ کھٹن اور ناہموار ہو گا۔ کسی کو بھی یہ غلط فہمی نہیں ہے کہ یہ مذاکرات مشکل نہیں ہوں گے۔ لیکن تقریبًا دو دہائیوں کے دوران پہلی بار یہ مذاکرات افغان عوام میں ہوں گے اور ان مذاکرات کے لیے یہ مناسب جگہ ہے۔‘
مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ 'معاہدے کے مطابق ہم تمام متعلقہ افغان فریقوں کے درمیان اعتماد کی فضا پیدا کرنے، افغان حکومت، غیر طالبان ، اور دیگر کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات پیدا کرنے کے لیے کام کریں گے۔
’ہم چاہتے ہیں کہ یہ ایک جامع عمل ہو جس میں سب شامل ہوں۔ افغان حکومت نے بھی اس پر ہمیں یقین دہانی کروائی ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ قیدیوں کی یہ رہائی ’بات چیت کی شرط نہیں ہو سکتی‘ لیکن مذاکرات کا حصہ ضرور ہو سکتی ہے۔
واضح رہے کہ سنیچر کو امریکہ اور افغان طالبان نے طویل عرصے سے جاری امن مذاکرات کے بعد ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت افغانستان میں گذشتہ 18 برس سے جاری جنگ کا خاتمہ ممکن ہو پائے گا۔
یہ بھی پڑھیے
0 Comments